Monday, April 26, 2010

غم الفت ----------میری دوسری غزل

غمِ اُلفت میں اشکوں کوبرسنے دو
ہماری آنکھ کے ساغرچھلکنے دو

نہیں حاجت خِرد تک رہنمائی کی
مجھے شہرِتمنّامیں بھٹکنے دو

میں سوزِعشق کی دولت پہ نازاں ہوں
مری دولت مرے ہی پاس رہنے دو

ہمارادم لبوں پرہے مگرواں سے
پیام آیا"ہمیں تھوڑاسنورنے دو"

سناہے عشق ہے اک آگ کادریا
مجھے ہرموج کے اندراترنے دو

ہوامیں ریشمی آنچل کولہراکر
جہانِ دل کے بام ودَرمہکنے دو

بجھادوآگ نفرت کی اے انسانو
جہاں میں پیارکے غنچے چٹکنے دو

بڑا پُرلُطف اسکی دیدکامنظر
دیارِ یارمیں کچھ دیررہنے دو

رُخِ روشن سے زلفوں کی گھٹاؤں کو
ہٹاکرصبح کاسورج چمکنے دو

چمکتے موتیوں کی مثل لگتی ہے
گلابی پتیوں پہ اوس پڑنے دو

چراغِ آگہی روشن کرو صفدر
ہمیں اس قیدِ ظلمت سے نکلنے دو

روشن خیا لی --- میری پہلی غزل

ادا ہر اک دلیلِ بے مثالی ہے

وہ کتنا شوخ سا اورلا اُبالی ہے

تری چنچل نگاہِ شوق نے اکثر
مرے دل میں جگہ ہردم بنالی ہے

گُھلا ہے رنگ جوگُلشن کے پھولوں میں
مرے محبوب کے چہرے کی لالی ہے

چمن مہکے، کلی چٹکے،صبا بہکے
وصالِ یار کی ساعت نرالی ہے

غموں سے زندگی کے ڈر رہے ہوتم
ارے اٹھو بڑھو، اللہ والی ہے

شہر میں ہرطرف ہے خوف کا عالَم
عدو نے امن کی دولت چرالی ہے

ہے رقصاں بنتِ حوّا برسرِ محفل
یہ کیسی بدنُما روشن خیالی ہے

جہاں سے مانگ کر بھی کیاملا ہمکو
ہمارے خُم کودیکھو پھربھی خالی ہے

بتا دے کوئی آکر مجھکو یہ صفدر
غموں سے کس طرح دل کی بحالی ہے

10/02/2010