(کبھی رو بھی لیا کر۔۔۔محسن نقوی )
اُجڑے ہُوے لوگوں سے گریزاں نہ ہُوا کر
حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کردے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے
تو حلقہء یاراں میں بھی محتاط رہا کر
کیا جانئے کیوں تیز ہوا سوچ میں گم ہے
خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اڑا کر
اس شخص کے تم سے بھی مراسم ہیں تو ہونگے
وہ جھوٹ نہ بولے گا مرے سامنے آکر
پہلا سا کہاں اب مری رفتار کا عالم
اے گردش دوراں ذرا تھم تھم کے چلا کر
اک روح کی فریاد نے چونکا دیا مجھکو
تو اب تو مجھے جسم کے زنداں سے رہا کر
اب ٹھوکریں کھائے گا کہاں اے غم احباب
میں نے تو کہا تھا کہ مرے دل میں رہا کر
اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسن
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بُجھا کر
حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کردے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے
تو حلقہء یاراں میں بھی محتاط رہا کر
کیا جانئے کیوں تیز ہوا سوچ میں گم ہے
خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اڑا کر
اس شخص کے تم سے بھی مراسم ہیں تو ہونگے
وہ جھوٹ نہ بولے گا مرے سامنے آکر
پہلا سا کہاں اب مری رفتار کا عالم
اے گردش دوراں ذرا تھم تھم کے چلا کر
اک روح کی فریاد نے چونکا دیا مجھکو
تو اب تو مجھے جسم کے زنداں سے رہا کر
اب ٹھوکریں کھائے گا کہاں اے غم احباب
میں نے تو کہا تھا کہ مرے دل میں رہا کر
اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسن
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بُجھا کر
بچھڑ کے مجھ سے۔۔۔محسن نقوی
بچھڑ کے مجھ سے کبھی تو نے یہ بھی سوچا ہے
ادھورا چاند بھی کتنا اداس لگتا ھے
یہ ختم وصال کا لمحہ ہے را ئگاں نہ سمجھ
کہ اس کے بعد وہی دوریوں کا صحرا ہے
کچھ اور دیر نہ جھاڑنا اداسیوں کے شجر
کسے خبر کون تیرے سائے میں بیٹھا ہے
یہ رکھ رکھاؤ محبت سکھا گئی اس کو
وہ روٹھ کر بھی مجھے مسکرا کے ملتا ہے
میں کس طرح تجھے دیکھوں نظر جھجکتی ہے
یہ بدن ہے کہ آئینو ں کا دریا ہے
کچھ اس قدر بھی تو آساں نہیں ہے عشق تیرا
یہ زہر دل میں اتر کے ہی راس آتا ہے
میں تجھ کو پا کے بھی کھویا ہوا سا رہتا ہوں
کبھی کبھی تو مجھے تو نے ٹھیک سمجھا ہے
مجھے خبر ہے کہ کیا ہے جدائیوں کا عذاب
کہ میں نے شاخ سے گل کوبچھڑتے دیکھا ہے
میں مسکرا بھی پڑا ہوں تو کیوں خفا ہیں یہ لوگ
کہ پھول ٹوٹی ہو ئی قبر پر بھی کھلتا ہے
اسے گنوا کے میں زندہ ہوں اس طرح محسن
کہ جیسے تیز ہوا میں چراغ جلتا ہے
ادھورا چاند بھی کتنا اداس لگتا ھے
یہ ختم وصال کا لمحہ ہے را ئگاں نہ سمجھ
کہ اس کے بعد وہی دوریوں کا صحرا ہے
کچھ اور دیر نہ جھاڑنا اداسیوں کے شجر
کسے خبر کون تیرے سائے میں بیٹھا ہے
یہ رکھ رکھاؤ محبت سکھا گئی اس کو
وہ روٹھ کر بھی مجھے مسکرا کے ملتا ہے
میں کس طرح تجھے دیکھوں نظر جھجکتی ہے
یہ بدن ہے کہ آئینو ں کا دریا ہے
کچھ اس قدر بھی تو آساں نہیں ہے عشق تیرا
یہ زہر دل میں اتر کے ہی راس آتا ہے
میں تجھ کو پا کے بھی کھویا ہوا سا رہتا ہوں
کبھی کبھی تو مجھے تو نے ٹھیک سمجھا ہے
مجھے خبر ہے کہ کیا ہے جدائیوں کا عذاب
کہ میں نے شاخ سے گل کوبچھڑتے دیکھا ہے
میں مسکرا بھی پڑا ہوں تو کیوں خفا ہیں یہ لوگ
کہ پھول ٹوٹی ہو ئی قبر پر بھی کھلتا ہے
اسے گنوا کے میں زندہ ہوں اس طرح محسن
کہ جیسے تیز ہوا میں چراغ جلتا ہے
لغزشوں سے مارا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
دونوں انساں ہیں خداتو بھی نہیں میں بھی نہیں
دونوں انساں ہیں خداتو بھی نہیں میں بھی نہیں
توجفا کی میں وفا کی راہ پر ہیں گامزن
پیچھے مڑ کر دیکھتا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
مصلحت نے کر دیے دونوں میں پیدا اختلاف
ورنہ فطرت کا برا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
جرم کی نوعیتو ں میں کچھ تفاوت ہو توہو
در حقیقت پارسا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
جان محسن تو بھی تھا ضدی انا مجھ میں بھی تھی
دونوں خودسر تھے جھکا تو بھی نہیں میں بھی نہیں