نعت ۔۔۔احمد فراز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مِرے رسول کہ نسبت تجھے اجالوں سے
میں تیرا ذکر کروں صبح کے حوالوں سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مِرے رسول کہ نسبت تجھے اجالوں سے
میں تیرا ذکر کروں صبح کے حوالوں سے
نہ میری نعت کی محتاج ذات ہے تیری
نہ تیری مدح ہے ممکن میرے خیالوں سے
تو روشنی کا پیمبر ہے اور میری تاریخ
بھری پڑی ہے شبِ ظلم کی مثالوں سے
تیرا پیام محبّت تھا اور میرے یہاں
دل و دماغ ہیں پُر نفرتوں کے جالوں سے
یہ افتخار ہے تیر اکہ میرے عرش مقام
تو ہمکلام رہا ہے زمین والوں سے
مگر یہ مفتی و واعظ یہ محتسب یہ فقیہ
جو معتبر ہیں فقط مصلحت کی چالوں سے
خدا کے نام کو بیچیں مگر خدا نہ کرے
اثر پذیر ہوں خلقِ خدا کے نالوں سے
نہ میری آنکھ میں کاجل نہ مشکبو ہے لباس
کہ میرے دل کا ہے رشتہ خراب حالوں سے
ہے ترش رو میری باتوں سے صاحبِ منبر
خطیبِ شہر ہے برہم میرے سوالوں سے
میرے ضمیر نے قابیل کو نہیں بخشا
میں کیسے صلح کروں قتل کر نے والوںسے
میں بے بساط سا شاعر ہوں پر کرم تیرا
کہ با شرف ہوں قبا و کلاہ والوں سے

(ہوئی ہے شام ۔۔۔۔۔ احمد فراز)
ہوئی ہے شام پھرآنکھوں میں بس گیا ہے تو
کہاں گیا ہے مرے شہر کے مسافر تو
مری مثال کہ اک نخلِ خشک صحرا ہوں
ترا خیال کہ شاخِ چمن کا طائر تو
میں جانتاہوں کہ دنیاتجھے بدل دے گی
میں مانتاہوں کہ ایسا نہیں بظاہر تو
ہنسی خوشی سے بچھڑ جا ،اگربچھڑ نا ہے
یہ ہرمقام پہ کیا سوچتا ہے آخرتو
فضااداس ہے ،رت مضمحل ہے میں چپ ہوں
جو ہوسکے تو چلا آکسی کی خاطر تو
فراز تونے اسے مشکلوں میں ڈال دیا
زمانہ صاحبِ زَر اور صرف شاعر تو
ہمیں ستم کا گلہ کیا،کہ یہ جہاں والے
سفینے چھوڑ کے ساحل چلے تو ہیں لیکن
یہ دیکھنا ہے کہ اب کس ٹھکانے لگتے ہیں
پلک جھپکتے ہی دنیا اُجاڑ دیتی ہے
وہ بستیاں جنہیں بستے زمانے لگتے ہیں
فراز ملتے ہیں غم بھی نصیب والوں کو
ہر اِک کے ہاتھ کہاں یہ خزانے لگتے ہیں
ہم ایسے سادہ دلوں کو وہ دوست ہو کہ عدو
سبھی نے وعدۂِ فردا پہ ٹال رکھا ہے
بھری بہار میں اک شاخ پر کھلا ہے گلاب
کہ جیسے تو نے ہتھیلی پہ گال رکھا ہے
فراز عشق کی دنیا تو خوبصورت تھی
یہ کس نے فتنہ ہجر و وصال رکھا ہے
(تیرے قریب آکے۔۔۔احمدفراز)
تیرے قریب آکے بڑی الجھنوں میں ہوں
میں دشمنوں میں ہوں کہ ترے دوستوں میں ہوں
مجھ سے گریز پا ہے تو ہرراستہ بدل
میں سنگ راہ ہوں تو سبھی راستوں میں ہوں
تو آچکا ہے سطح پہ کب سے خبر نہیں
بے درد میں ابھی انہیں گہرائیوں میں ہوں
اے یارِ خوش دیار تجھے کیا خبر کہ میں
کب سے اداسیوں کے گھنے جنگلوں میں ہوں
تو لُوٹ کر بھی اہلِ تمناکوخوش نہیں
میں لُٹ کے بھی وفا کے انہیں قافلوں میں ہوں
بدلا نہ میرے بعد بھی موضوعِ گفتگو
میں جاچکا ہوں پھر بھی تری محفلوں میں ہوں
مجھ سے بچھڑ کے توبھی تو روئے گا عمر بھر
یہ سوچ لے کہ میں بھی تری خواہشوں میں ہوں
تو ہنس رہا ہے مجھ پہ مرا حال دیکھ کر
اور پھر بھی میں شریک ترے قہقہوں میں ہوں
خود بھی مثالِ لالۂِ صحرا لہولہو
اور خود فراز اپنے تماشائیوں میں ہوں
(دولتِ درد۔۔۔ احمدفراز)
دولتِ درد کودنیاسے چھپا کررکھنا
آنکھ میں بوند نہ ہودل میں سمندر رکھنا
کل گئے گزرے زمانے کاخیال آئے گا
آج اتنا بھی نہ راتوں کومنور رکھنا
اپنی آشفتہ مزاجی پہ ہنسی آتی ہے
دشمنی سنگ سے اور کانچ کا پیکر رکھنا
آس کب دل کو نہیں تھی تیرے آجانے کی
پر نہ ایسی کہ قدم گھر سے نہ باہر رکھنا
ذکر اسکا ہی سہی بزم میں بیٹھے ہوفراز
درد کیسا بھی اٹھے ہاتھ نہ دل پر رکھنا
(سلسلے توڑگیا۔۔۔احمدفراز)
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنےتومراسم تھے کہ آتے جاتے
شکوہِ ظُلمتِ شب سےتوکہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
کتنا آساں تھا تیرے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے
جشنِ مقتل ہی نہ برپا ہوا ورنہ ہم بھی
پابجولاں ہی سہی ناچتے گاتے جاتے
اسکی وہ جانے اسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا
تم فراز اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے
(تھوڑی دور ساتھ چلو۔۔۔ احمدفراز)
کٹھن ہے راہ گزر تھوڑی دور ساتھ چلو
بہت کڑا ہے سفر تھوڑی دور ساتھ چلو
تمام عمر کہاں کوئی ساتھ دیتا ہے
یہ مانتا ہوں مگر تھوڑی دور ساتھ چلو
نشے میں چور ہوں میں بھی تمہیں بھی ہوش نہیں
بڑا مزہ ہو اگر تھوڑی دور ساتھ چلو
یہ ایک شب کی ملاقات بھی غنیمت ہے
کسے ہے کل کی خبر تھوڑی دور ساتھ چلو
ابھی تو جاگ رہے ہیں چراغ راہوں کے
ابھی ہے دور سحر تھوڑی دور ساتھ چلو
طوافِ منزلِ جاناں ہمیں بھی کرنا ہے
فراز تم بھی اگر تھوڑی دور ساتھ چلو
(فراق کے دکھ ۔۔۔احمدفراز)
اگر کسی سے مراسم بڑھانے لگتے ہیں
ترے فراق کے دُکھ یاد آنے لگتے ہیں
ترے فراق کے دُکھ یاد آنے لگتے ہیں
ہمیں ستم کا گلہ کیا،کہ یہ جہاں والے
کبھی کبھی ترا دل بھی دُکھانے لگتے ہیں
سفینے چھوڑ کے ساحل چلے تو ہیں لیکن
یہ دیکھنا ہے کہ اب کس ٹھکانے لگتے ہیں
پلک جھپکتے ہی دنیا اُجاڑ دیتی ہے
وہ بستیاں جنہیں بستے زمانے لگتے ہیں
فراز ملتے ہیں غم بھی نصیب والوں کو
ہر اِک کے ہاتھ کہاں یہ خزانے لگتے ہیں
(ہماری طرح ۔۔۔احمدفراز)
پھرے گا توبھی یونہی کوبکو ہماری طرح
دریدہ دامن وآشفتہ مُو ہماری طرح
کبھی تو سنگ سے پھوٹے گی آبجو غم کی
کبھی توپھوٹ کے روئے گا توہماری طرح
پلٹ کے تجھ کو بھی آنا ہے اس طرف لیکن
لُٹا کے قافلہ رنگ وبوہماری طرح
وہ لاکھ دشمنِ جاں ہومگر خدا نہ کرے
کہ حال اسکا بھی ہو،ہوبہو ہماری طرح
ہمی فراز سزاوارِ سنگ کیوں ٹھہرے
کہ اور بھی توہیں دیوانہ خُو ہماری طرح
(سنا ہے لوگ۔۔۔احمدفراز)
سنا ہے لو گ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سواسکے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اسکو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کرکے دیکھتے ہیں
سنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اسکی
سو ہم بھی اسکی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اسکو بھی ہے شعرو شاعری سے شغف
سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بامِ فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات میں جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے حشر ہیں اسکی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اسکو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اسکی
سنا ہے شام کوسائے گزر کے دیکھتے ہیں
سیاہ چشم تو دیکھے ہیں پر نہ ایسے بھی
کہ اسکو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اسکے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سوہم بہا رپہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے آئنہ تمثال ہے جبیں اسکی
جو سادہ دل ہے اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
سنا ہے جب سے حمائل ہیں اسکی گردن میں
مزاج اور ہی لعل وگہر کے دیکھتے ہیں
وہ سرو قد ہے مگر بے گلِ مراد نہیں
کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں
رکے تو گردشیں اسکا طواف کرتی ہیں
چلے تو اسکو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
کسے نصیب کہ بے پیراہن اسے دیکھے
کبھی کبھی درو دیوار گھر کے دیکھتے ہیں
کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی
اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں
اب اسکے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کرجائیں
فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں
(عشق کی دنیا۔۔۔احمدفراز)
اگرچہ زور ہواؤں نے ڈال رکھا ہے
مگر چراغ نے لو کو سنبھال رکھا ہے
محبتوں میں تو ملنا ہے یا اجڑ جانا
مزاجِ عشق میں کب اعتدال رکھا ہے
ہوا میں نشہ ہی نشہ، فضا میں رنگ ہی رنگ
یہ کس نے پیرہن اپنا اچھال رکھا ہے
بھلے دنوں کا بھروسا ہی کیا رہیں نہ رہیں
سو میں نے رشتہِ غم کو بحال رکھا ہے
مگر چراغ نے لو کو سنبھال رکھا ہے
محبتوں میں تو ملنا ہے یا اجڑ جانا
مزاجِ عشق میں کب اعتدال رکھا ہے
ہوا میں نشہ ہی نشہ، فضا میں رنگ ہی رنگ
یہ کس نے پیرہن اپنا اچھال رکھا ہے
بھلے دنوں کا بھروسا ہی کیا رہیں نہ رہیں
سو میں نے رشتہِ غم کو بحال رکھا ہے
ہم ایسے سادہ دلوں کو وہ دوست ہو کہ عدو
سبھی نے وعدۂِ فردا پہ ٹال رکھا ہے
بھری بہار میں اک شاخ پر کھلا ہے گلاب
کہ جیسے تو نے ہتھیلی پہ گال رکھا ہے
فراز عشق کی دنیا تو خوبصورت تھی
یہ کس نے فتنہ ہجر و وصال رکھا ہے